"The Ballerina "
My greetings to the seeing eyes and listening ears. Today's topic is to write something of my own accord. Today I will try to write on one word
Ballerina
We have drawn from the sesame of the coast. The curls of the feet of this beauty, who used to jump on the ground and say that the dance will be on the body of the sun. Where is she now? She is the goddess of beauty. My heart was pounding.
Who used to wear talismanic anklets. And whose lamp was lit by the tinkling of the pile.
And whose eyes covered so many oceans. The one whose glance used to kill millions of people. In how many streets? And in how many coaches? Only the song of that name was playing
Then Tilak, every young man, every old man, used to collect money from the house to wear the colors of the dancer.
The red of his lips. It was built with the blood of many houses. When she walked, rose flowers in the streets He used to be his guest on dirt roads.
Every tasteless, sick person becomes sick. From roofs or broken windows. He was waiting like a soldier. Somewhere eyes, somewhere this heart and thought. He was unconscious due to hangover.
That dancer is like an exam"Fail or pass" had come. That dancer was actually just a bump. Whose feelings were separated from the moon. He settled human nature in the world. It had to be taken from the beginning to the end. He closed his eyes and just thought.
Ali showed it separately in some bridges.
She returned. Like a whirlwind. His light was to bring out human nature from darkness.
Whose pale color was like a stain. What she wanted to say. That the beautiful and shining moon has a stain. Whom the light does not allow to be stained by the senses of the eyes and the hunger of thought.
Like the last sentence of Kashif Ali Amjad's poem. This life is the last piece of snooker and it is about to end.
The word dancer is apparently used. Behind which the beauty of a woman is neither color nor blemish. Rather, it is human nature. He sees darkness as light.
He is the priest of the senses. He is at one point a human being and at another point an animal. And the woman is the moon that has opened for the man who lives in the window. Beyond which the apparent beauty that is only for a moment.
And on one side is the eternal beauty of life. Which describes a woman in the real sense. Stains can come on any good garment. But it can be erased.
In my opinion, life is a path of success and failures, which is for every human being, whether male or female. A woman is not good only in the veil. She can be good at dancing too. It is our right and duty to give and receive respect.
ہم نے ساحل کے تل سے کھینچے ہیں ۔اس حسینہ کے پاؤں کے گھنگرو ۔جو زمیں پر اچھل کے کہتی تھی ۔کہ رقص سورج کے جسم پر ہوگا ۔اب کہاں ہے ؟وہ حسن کی دیوی ۔کہ جس کے نقش تکنے کو ۔عرش والوں کے دل مچلتے تھے ۔
جو طلسمی پازیب پہنتی تھی
اور جس کی پائل کی چھن چھنا چھن سے تندرو میں چراغ جلتے تھے۔
اور جسکی آنکھوں نے کتنے سمندر سمیٹے ہوئے تھے ۔
وہ جس کی اک نظر لاکھوں سالاروں کو کاٹ گرا دیتی تھی ۔
کتنی گلیوں میں ۔
اور کتنے ہی کوچوں میں ۔
صرف اسی نام کی دھن ہی بجتی تھی بس۔
تب تلک ہر جواں ہر بزرگ ۔گھر سے پیسے رقاصہ کی رنگینیوں کو تکنے کے واسطے بٹورتے تھے بس ۔
اسکے ہونٹوں کی سرخی۔ نہ جانے کتنے گھروں کے خون سے مل کر بنائی گئی تھی ۔
وہ چلتی تو گلیوں میں گلاب کے پھول
کچی سڑکوں پر اسکے کے مہمان بنے ہوتے تھے۔
ہر بے ذوق ،بیمار بن ٹھن کے تب ۔
گھر کی چھتوں یا ٹوٹی ہوئی کھڑکیوں سے۔
ایک فوجی کی مانند نشانہ لگائے ہوئے منتظر تھا ۔
کہیں آنکھیں ،
کہیں پہ یہ دل اور سوچ ۔
حالتِ خماری سے بے ہوش تھے۔
وہ رقاصہ کسی امتحاں کی طرح ۔
"فیل یا پاس" کرنے کو آئی تھی بس ۔
وہ رقاصہ اصل میں، ایک ٹکرا تھا بس۔
جو حسین چاند سے ہو گیا تھا جدا ۔
اس نے دنیا میں انساں کی فطرت کو بس۔
ابتدا سے لے جانا تھا سمت انتہا۔
اس نے آنکھوں لبوں اور بس سوچ کو ۔
کچھ پلوں میں جدا کر دکھایا علی ۔
وہ لوٹ گئ۔ایک بھنور کی طرح ۔
اس کی روشنی نے فطرتِ انساں کو اندھیرے سے نکالنا تھا ۔
جسکی سنوالی رنگت ایک داغ کی مانند تھی ۔
جو بتانا چاہ رہی تھی کہ خوبصورت اور چمکتے چاند میں داغ ہوتا ہے۔
جسکو روشنی آنکھوں کی حواس اور سوچ کی خماری سے داغدار نہیں ہونے دیتی۔
خیر کاشف علی امجد کی نظم کے آخری فقرے کی طرح ۔
یہ زندگی آخری پیس ہے سنوکر کا اور ختم ہونے والی ہے ۔
رقاصہ ایک لفظ بظاہر استعمال ہوا ہے ۔
جس کے پیچھے عورت کی خوبصورتی رنگت نہیں نہ داغداری ہے ۔
بلکہ انسان کی فطرت ہے۔وہ اندھیرے کو روشن دیکھتا ہے ۔
وہ حواس کا پجاری ہے ۔
وہ ایک پل میں انساں اور ایک پل میں جانور ہے ۔
اور عورت وہ چاند ہے جس نے کھڑکی میں رہنے والے انساں کیلئے در کیا ہوا ہے ۔
جس کے اس پار بظاہر دیکھتی خوبصورتی ایک پل کیلئے ہے
اور ایک طرف زندگی تاحیات خوبصورتی ہے۔ جو ایک اصل معنوں میں عورت کو بیان کرتی ہے ۔
داغداری ہر اچھے لباس پر آ سکتی ہے ۔
مگر مٹ بھی سکتی ہے۔
زندگی میرے خیال سے کامیابی اور ناکامیوں کا راستہ ہے ۔جو ہر انسان خواہ مرد ہو عورت دونوں کیلئے ہے ۔
ایک عورت پردے میں ہی اچھی نہیں ۔
وہ رقص کرتے ہوئے بھی اچھی ہو سکتی ہے ۔
ہمارا حق ہے اور فرض ہے عزت دینا اور لینا ۔
دوستوں کو پڑھنے کیلئے دعوت دیتا ہوں آئیے ۔
یہ کتنی بہترین تحریر ہے علی ۔ آپ میں ایک شاعر کی روح موجود ہے جو نثر کو بڑے اچھے اور شاندار طریقے سے بیان کرتی ہے ۔ چاند میں داغ کی بات بڑی اچھی ہے بہت سے شاعروں نے اسے نبھایا ہے لیکن میں نے اپنے ایک شعر میں کہا تھا کہ میں محبوب کا چاند سا نہیں کہتا کیوںکہ چاند میں داغ ہے اور میرا محبوب جو ہوگا وہ داغ سے پاک ہوگا ہاہاہاہا ۔۔ میں نے باقی شعرا سے کچھ ہٹ کر کہنا چاہا تھا۔۔سلامت رہیں ❤️
ہاہاہاہاہاہاہا بلکل ۔
مگر وہ بھی دور سے دیکھائی نہیں دیتی ۔
بعض اوقات آدھا چاند اور چاند بھی بدلتا رہتا ہے ۔
سو آپکا شعر اچھا ہے اور قابلِ تعریف ہے۔
Very interesting👀
It's More beautiful to read in Urdu👏👌