Education and Muslims
😅 تعلیم اور مسلمان --- مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے حوالے سے 😅
دو یا تین دن پہلے جب بہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈ پٹنہ، کا اعلامیہ براے فوقانیہ و مولوی امتحانات نظر سے گزرا تو گزشتہ سال( 30/10 2017 کو منظرِ عام پر آنے والا)بھیانک رزلٹ بھی یاد آ گیا ۔2017 میں (14/5/2017 تا 25/5/2017 ) منعقد ہونے والے فوقانیہ امتحانات میں کل 80992 طلبہ و طالبات نے شرکت کی ۔ان میں صرف 4 طلبہ و طالبات نے فرسٹ ڈویژن حاصل کیا، 32720 سکنڈ ڈویژن سے پاس ہوے، 16665 کو تھرڈ ڈویژن ملا جبکہ 31107 طلبہ و طالبات فیل ہو گئے ۔اگر فی طالب و طالبہ کی بورڈ کی مقرر کردہ 700 روپے کی فیس کا حساب لگایا جاے تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ صرف بہار میں گارجینوں کے 21774900 روپے برباد ہو گئے ۔وقت اور محنت کی قیمت تو لگائی نہیں جا سکتی!
یہ کسی ایک امتحان میں طلبہ و طالبات کے فیل ہونے کا بہ اعتبارِ تعداد ایک عالمی ریکارڈ بنا تھا ۔اب کی بار کے امتحانات میں کیا ہوگا، یہ اللہ ہی کو معلوم ہے ۔گزشتہ سال کے اس رزلٹ نے بورڈ سے ملحق مدارس کی تعلیمی و تربیتی کارگردگی کا پردہ پوری طرح سے فاش کر دیا تھا ۔اس بار امید کی جانی چاہیے کہ اس کی رفو گری ہوگی اور وہ چاک دامانی مزید وسیع نہیں ہوگی!!
بر وقت بہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے زیرِ اشراف 2176 مدارس مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری اپنے سر لیے ہوے ہیں اور مزید 814 مدارس بہار بورڈ سے منظوری یا الحاق کے منتظر ہیں اور آثار و قرائن سے لگتا ہے کہ ان کا الحاق عمل میں آ ہی جاے گا اگلے اسمبلی انتخابات سے پہلے پہلے ۔
یہ امت چونکہ امتِ اقرا ہے، اس لیے اس کی تعلیم و تربیت کا سامان دستِ غیب سے بھی ہر دور اور ہر زمانے میں ہوتا رہا ہے ۔لیکن اسے شومیِ قسمت کہیے یا کچھ اور کہ ہم نے ان وسائل کا استعمال قرونِ مفضلہ کے بعد کبھی بھی ایمانداری سے نہیں کیا ۔
آج ہم جس تناظر میں امتِ مسلمہ کی تعلیمی صورتِ حال کو دیکھنا چاہتے ہیں، وہ مدرسہ بورڈ ہی ہے ۔میری جانکاری کے مطابق، ہندستان کی آٹھ ریاستوں میں مدرسہ بورڈ قائم ہے جن میں 5 ریاستوں کے مدرسہ بورڈ کے فوقانیہ اور مولوی کے سرٹیفکٹس کو سی بی ایس ای نے بھی منظوری دے رکھی ہے یعنی فوقانیہ کو میٹریکولیشن اور مولوی کو انٹر کا درجہ دیا ہوا ہے ۔
مدرسہ بورڈ کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے امتِ ہندی کے ایک بڑے طبقے کو ایک ایسی عظیم نعمت سے نوازا تھا جس کا درست اور صحیح استعمال کرکے ہم اپنی تعلیمی پسماندگی کو بہت حد تک دور کر سکتے تھے مگر ایسا نہیں ہوا بلکہ کہنا چاہیے کہ ایسا کرنے کا ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں ۔
اگر ہم 2176 مدارس کے اساتذہ کی تعداد 6 فی مدرسہ، مان لیں تو بھی اساتذہ کی کل تعداد 13056 ہو جاتی ہے اور اگر اتنی بڑی تعداد اساتذہ کی، امت مسلمہ کی تعلیم و تربیت کا فریضہ ایماندارانہ طریقے سے انجام دیتی تو مسلم سماج میں تعلیمی انقلاب نہ برپا ہونے کی کوئی وجہ تھی ہی نہیں اور آج بھی نہیں ہے ۔لیکن کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا، کے مصداق ہم نے اس تعلیمی اثاثے کو کرپشن کی زہریلی پڑیا بنا دیا جس کا تعفن آج مسلم سماج میں ہر جگہ محسوس ہو رہا ہے ۔
اس کی بہت سی وجوہات ہیں اور سب کو معلوم بھی ہیں ۔اس لیے اس پر بحث کرنا تحصیلِ حاصل کے سوا کچھ نہیں ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے اس اثاثے کی قدر وقیمت سمجھنے اور اس کا صحیح استعمال کرنے کی توفیق دے!!!!!