غصہ سے نفرت۔۔۔
ایک روزامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ظہر کی نماز کے بعد گھر تشریف لے گئے۔ بالا خانے پر آپ کا گھر تھا‘ جاکر آرام کرنے کیلئے بستر پر لیٹ گئے۔ اتنے میں کسی نے دروازے پر دستک دی۔ آپ اندازہ کیجئے جو شخص ساری رات کا جاگا ہوا ہو اور سارا دن مصروف رہا ہو‘ اس وقت اس کی کیا کیفیت ہوگی۔ ایسے وقت کوئی آجائے تو انسان کو کتنا ناگوار ہوتا ہے کہ یہ شخص بے وقت آگیا۔۔۔۔
لیکن امام صاحب اٹھے‘ زینے سے نیچے اترے‘ دروازہ کھولا تو دیکھا کہ ایک صاحب کھڑے ہیں‘ امام صاحب نے اس سے پوچھا کہ کیسے آنا ہوا؟ اس نے کہا کہ ایک مسئلہ معلوم کرنا ہے۔ دیکھئے اول تو امام صاحب جب مسائل بتانے کیلئے بیٹھے تھے وہاں آکر تو مسئلہ پوچھا نہیں‘ اب بے وقت پریشان کرنے یہاں آگئے۔ لیکن امام صاحب نے اس کو کچھ نہیں کہا بلکہ فرمایا کہ اچھا بھائی‘ کیا مسئلہ معلوم کرنا ہے؟ اس نے کہا کہ میں کیا بتاؤں؟ جب میں آرہا تھا تو اس وقت مجھے یاد تھا کہ کیا مسئلہ معلوم کرنا ہے لیکن اب میں بھول گیا‘ یاد نہیں رہا کہ کیا مسئلہ پوچھناتھا۔ امام صاحب نے فرمایا کہ اچھا جب یاد آئے تو پھر پوچھ لینا۔
آپ نے اس کو برا بھلا نہیں کہا نہ اس کو ڈانٹا ڈپٹا بلکہ خاموشی سے واپس اوپر چلے گئے۔ ابھی جاکر بستر پر لیٹے ہی تھے کہ دوبارہ دروازہ پر دستک ہوئی۔ آپ نے پوچھا کیا بات ہے؟ اس نے کہا کہ حضرت! وہ مسئلہ مجھے یاد آگیا تھا آپ نے فرمایا پوچھ لو۔ اس نے کہا کہ ابھی تک تو یاد تھا مگر جب آپ آدھی سیڑھی تک پہنچے تو میں وہ مسئلہ بھول گیا۔ اگر ایک عام آدمی ہوتا تو اس وقت تک اس کے اشتعال کا کیا عالم ہوتا مگر امام صاحب اپنے نفس کو مٹاچکے تھے۔ امام صاحب نے فرمایا اچھا بھائی جب یاد آجائے توپوچھ لینا یہ کہہ کر آپ واپس چلے گئے اور جا کر بستر پر لیٹ گئے۔
ابھی لیٹے ہی تھے کہ دوبارہ پھر دروازے پر دستک ہوئی۔ آپ پھر نیچے تشریف لائے۔ دروازہ کھولا تو دیکھا کہ وہی شخص کھڑا ہے۔ اس شخص نے کہا کہ حضرت! وہ مسئلہ یاد آگیا۔ امام صاحب نے پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے؟ اس نے کہا کہ یہ مسئلہ معلوم کرنا ہے کہ انسان کی نجاست (پاخانہ) کا ذائقہ کڑوا ہوتا ہے یامیٹھا ہوتا ہے؟ (العیاذ باللہ یہ بھی کوئی مسئلہ ہے)
اب صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتااگر کوئی دوسرا آدمی ہوتا اور وہ اب تک ضبط بھی کررہا ہو تو اب اس سوال کے بعد تو اس کے ضبط کا پیمانہ لبریز ہوجاتا لیکن امام صاحب نے بہت اطمینان سے جواب دیا کہ اگر انسان کی نجاست تازہ ہو تو اس میں کچھ مٹھاس ہوتی ہے اور اگر سوکھ جائے تو کڑواہٹ پیدا ہوجاتی ہے۔ پھر وہ شخص کہنے لگا کہ کیا آپ نے چکھ کر دیکھا ہے؟ (العیاذ باللہ)حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہر چیز کا علم چکھ کر حاصل نہیں کیا جاتا بلکہ بعض چیزوں کا علم عقل سے حاصل کیا جاتاہے اور عقل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تازہ نجاست پر مکھی بیٹھتی ہے خشک پر نہیں بیٹھتی۔ اس سے پتہ چلا کہ دونوں میں فرق ہے ورنہ مکھی دونوں پر بیٹھتی۔
اپنے وقت کا حلیم انسانجب امام صاحب نے یہ جواب دے دیا تو اس شخص نے کہا۔ امام صاحب! میں آپ کے سامنے ہاتھ جوڑتا ہوں۔ مجھے معاف کیجئے گا میں نے آپ کو بہت ستایا لیکن آج آپ نے مجھے ہرا دیا۔
امام صاحب نے فرمایا کہ میں نے کیسے ہرا دیا؟
اس شخص نے کہا کہ ایک دوست سے میری بحث ہورہی تھی میرا کہنا یہ تھا کہ حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کے اندر سب سے زیادہ بردباری ہے اور وہ غصہ نہ کرنے والے بزرگ ہیں اور میرے دوست کا یہ کہنا تھا کہ سب سے زیادہ بردبار اور غصہ نہ کرنے والے بزرگ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہیں اور ہم دونوں کے درمیان بحث ہوگئی اور اب ہم نے جانچنے کیلئے یہ طریقہ سوچا تھا کہ میں اس وقت آپ کے گھر پر آؤں جو آپ کے آرام کا وقت ہوتا ہے اور اس طرح دو تین مرتبہ آپ کو اوپر نیچے دوڑاؤں اور پھر آپ سے ایسا بیہودہ سوال کروں اور یہ دیکھوں کہ آپ غصہ ہوتے ہیں یا نہیں؟ میں نے کہا کہ اگر غصہ ہوگئے تو میں جیت جاؤں گا اور اگر غصہ نہ ہوئے تو تم جیت گئے لیکن آج آپ نے مجھے ہرا دیا اور واقعہ یہ ہے کہ میں نے اس روئے زمین پر ایسا حلیم انسان جس کو غصہ چھو کر بھی نہ گزرا ہو آپ کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں دیکھا۔اس سے اندازہ لگائیے کہ آپ کا کیا مقام تھا۔ اس پر ملائکہ کو رشک نہ آئے تو کس پر آئے۔ انہوں نے اپنے نفس کو بالکل مٹاہی دیا تھا۔
’’حلم‘‘ زینت بخشتا ہے چنانچہ حضور اقدس ﷺ نے یہ دعا فرمائی: (اللھم اغنی بالعلم وزینی بالحلم) (کنزل العمال)
’’ اے اللہ مجھے علم دے کر غنا عطا فرمائیے اور حلم کی زینت عطا فرمائیے‘‘
یعنی وقار دے کرآراستہ فرمادیجئے۔ آدمی کے پاس علم ہو اور حلم نہ ہو‘ بردباری نہ ہو تو پھر علم کے باوجود آدمی میں آراستگی اور زینت نہیں آسکتی۔
اس طریق پر چلنے کے لیے اور اپنے نفس کو قابو میں کرنے کے لیے پہلا قدم یہ ہے کہ غصہ نہ کرو۔ اس لیے فرمایا لاتغضب یہی پہلا سبق اور یہی مختصر نصیحت ہے اور یہی اللہ جل جلالہ کے غضب سے بچنے کا طریقہ بھی ہے۔
غصہ سے بچنے کی تدابیرصرف یہ نہیں ہے کہ حکم دےدیا کہ غصہ نہ کرو بلکہ غصہ سے بچنے کی تدبیر قرآن کریم نے بھی بتائی اور جناب رسول کریم ﷺ نے بھی بتلائی اس تدبیر کے ذریعہ غصہ کو دبانے کی مشق کی جاتی ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ غیراختیاری طور پر جو غصہ آجاتا ہے اور طبیعت میں ایک ہیجان پیدا ہوجاتا ہے اس غیراختیاری ہیجان پر اللہ تعالیٰ کے یہاں کوئی مواخذہ نہیں‘ اس لیے کہ وہ انسان کے اختیار سے باہر ہے لیکن طبیعت میں جو ہیجان اور اوٹن پیدا ہوئی تو یہ کوئی گناہ کی بات نہیں لیکن اگر اس غصے کے نتیجے میں کسی کو مار دیا یا کسی کو ڈانٹ دیا یا برا بھلا کہہ دیا تو گویا کہ اس غصے کے تقاضے پر عمل کرلیا‘ اب اس پر پکڑہوجائے گی اور یہ گناہ ہے
سوچیئے گا ضرور۔۔۔
اور آگاہ ضرور کیجیئے گا کہ کیا رائے ہے آپ سب کی؟
پر جواب دینے سے پہلے ہم سب خود کو آئینہ میں ضرور دیکھنا ہو گا۔
حسبی اللہ لا الہ الا ھو علیہ توکلت وھو رب العرش العظیم – ، القرآن سورتہ توبہ، آیت 129
اللہ سبحان وتعالی ہم سب کو مندرجہ بالا باتیں کھلے دل و دماغ کے ساتھ مثبت انداز میں سمجھنے، اس سے حاصل ہونے والے مثبت سبق پر صدق دل سے عمل کرنے کی اور ساتھ ہی ساتھ ہمیں ہماری تمام دینی، سماجی و اخلاقی ذمہ داریاں بطریق احسن پوری کرنے کی ھمت، طاقت و توفیق عطا فرما ئے۔ آمین!
(تحریر – منقول)
مندرجہ بالا تحریر سے آپ سب کس حد تک متفق ہیں یا ان میں کوئی کم بیشی باقی ہے تو اپنی قیمتی آراء سے ضرور آگاہ کر کے میری اور سب کی رہنمائی کا ذریعہ بنئیے گا۔ کیونکہ ہر شخص/فرد/گروہ/مکتبہ فکر کا اپنا اپنا سوچ اور دیکھنے کا انداز ہوتا ہے اور اس لیے ہمیں اس سب کی سوچ و نظریہ کا احترام ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس کی کسی بات/نکتہ کو قابل اصلاح پائیں تواُس شخص/فرد/گروہ/مکتبہ فکر یا ادارئے کی نشاندہی اور تصیح و تشریح کی طرف اُن کی توجہ اُس جانب ضرور مبذول کروائیں۔
نوٹ: لکھ دو کا اپنے تمام لکھنے والوں کے خیالات سے متفق ہونا قطعی ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی لکھ دو کے پلیٹ فارم پر لکھنا چاہتے ہیں تو اپنا پیغام بذریعہ تصویری، صوتی و بصری یا تحریری شکل میں بمعہ اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، لنکڈان، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ admin@likhdoo.com پر ارسال کردیجیے۔