Madam Quiry Part 2

in #madam4 years ago

جب مستقبل کی مادام کیوری پیر کی یونیورسٹی میں فزکس اور ریاضی کا مطالعہ کر رہی تھی تو وہ اس قدر مفلس ہوتی تھی کہ اکثر بھوک کے مارے بیہوش ہو جاتی اگر اسے ان دنوں یہ معلوم ہو جانا کہ پچاس برس بعد ایک فلم کمپنی دو لاکھ پونڈ خرچ کر کے اس کی زندگی کے متعلق ایک فلم بنائے گی تو کیا اسے حیرت نہ ہوتی؟ اگر اسےپہلے ہی معلوم ہوجاتا کہ وہ اسیی واحد شخصیت ہو گی جسے ان کی خدمات کے عوض دو مرتبہ نوبل پرائز ملے گا تو کیا اسے حیرت نہ ہوتی؟ پہلی مرتبہ اسے 1903ء میں فزکس میں نمایاں کام کرنے اور پھر 1911ء میں کیمسٹری میں نمایاں کام کرنے پر نوبل پرائز ملا۔

لیکن یہ حقیقت ہے کہ اگر جوانی میں پولینڈ کا ایک خوش حال کنبہ اس کی بے عزتی نہ کرتا تو نہ ہی یہ ایک سائنسدان بنتی اور نہ ہی ریڈیم دریافت کر سکتی۔

ہوا یوں کہ جب ابھی وہ انیس برس کی ایک نوجوان لڑکی تھی تو پولینڈ کے ایک خوشحال کنبے نے اپنی ایک دس سالہ لڑکی کی تعلیم و

تربیت کے لئے اسےملازم رکھ لیا۔
جب اس متمول کنبے کا ایک نوجوان لڑکا چھٹیوں پر آیا تو وہ اس نوجوان استانی کے ساتھ اکثر ڈانس کرتا رہتا ۔

وہ اس کے آداب اور شاعرانہ خیالات اور حس مزاح سے بڑا متاثر ہوا۔ اسے اس سے محبت ہو گئی اور اس سے مستقبل کی مادام کیوری سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا لیکن جب اس کی والدہ تک یہ خبر پہنچی تو وہ تقریبا بے ہوش ہو گئی۔ اس کے باپ نے شور برپا کر کے سارا گھر سر اٹھا لیا یہ کیا؟ اس کا لڑکا ایک مفلوک الحال لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ ایک ایسی لڑکی جس کا معاشرے میں کوئی مقام نہ تھا اور جو دوسروں کے گھر میں ملازمت کرتی تھی۔

بے عزتی کے اس تھپٹر نے مادام کیوری کو حیران و ششدر کر دیا۔ اس قدر حیران ہوئی اس نے شادی کا خیال ذہن سے نکال کر پیریں جانے اور وہاں تعلیم حاصل کر کے اپنی زندگی سائنس کی خدمات کے لئے وقف کرنے کا تہیہ کر لیا۔

: 1891ء میں یہ نوجوان لڑکی جس کا نام مانیہ سکلوڈو وسکا تھا پیرس آئی اور یونیورسٹی آف پیرس میں سائنس کی طالب علم بن گئی۔ وہ اس قدر شرمیلی تھی کہ کوئی دوست نہ بنا سکی۔ دراصل وہ اپنے مطالعے میں اس قدر محو ہو گئی کہ دوست
بنانے کے لئے اس کے پاس وقت ہی نہ ہوتا تھا وہ ہراس پل کو بیکار تصور کرتی جو مطالعہ پر صرف نہ ہوتا تھا۔ اگلے چار برسی اس نے اسی اثاثے پر زندگی بسر کرنا تھی جو اس نے ملازمت کر کے جمع کر رکھا تھا۔ یا پھر اس کی ماں اسے کبھی کبھار تھوڑے
بہت پیسے بھیج دیا کرتی تھی۔ وہ تین شلنگ روزانہ کے حساب سے خرچ کرتی۔ ان تین شلنگوں میں کمرے کا کرایه خوراک لباس اور یونیورستی کے اخراجات شامل تھے اس کا کمرہ چوتھی منزل پر واقع تھا اور اس میں فقط ایک دریچہ تھا۔ ان میں نہ توگیس نہ

ہی بجلی اور نہ ہی گرمی کا انتظام کیا گیا تھا وہ ساری سردیاں کوئلے کی دوبوریوں سے زیادہ نہ خرید سکتی . اس لئے کوئلے کے خزانے

کو بچانے کے لئے وہ اکثر سردیوں کی راتوں میں آتشدان روشن نہ کرتی اور بیٹھی اپنی منجمد انگلیوں اور کپکپاتے ہوئے ہاتھوں سے ریاضی کے سوال حل کرنے میں مصروف رہتی پر سونے سے پیشتر خود کو گرم کرنے کی خاطر وہ بندوق میں سے اپنے تمام کپڑے نکال کرکہ چارپائی پر بچھا لیتی اور آدھے اوڑھ لیتی۔ اس پر بھی اس کی سردی کمی نہ ہوتی تو کرسی پکڑکر اسے اپنے اوپر رکھ لیں تاکہ
اس کے وزن سے سردی کچھ کم لگے۔ اسے اپنا کھانا بھی خود ہی پکانا پڑتا – لیکن کھانا پکانے میں جو وقت صرف ہوتا وہ اس کے نذدیک ضائع ہو تا۔وہ کئی کئی دن مکھن اور ڈبل روٹی پر گزارہ کرتی۔

اکثر اس کا سر چکرانے لگتا اور وہ بستر پر گر کر بے ہوش ہو جاتی۔ جب وہ ہوش میں آتی تو اپنے آپ سے کہتی میں بے ہوش کیوں ہوئی تھی؟ وہ یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہ تھی کہ اس کی ببے حوشی کی وجہ فاقہ ہے۔ ایک دفعہ وہ کلاس روم میں بے ہوش ہو گئی اور جب اسے ہوش آیا تو اس نے ڈاکٹر کے سامنے تسلیم کر لیا کہ وہ کئی روز سے سوکھی رویوں پر گزارا کر رہی تھی۔

لیکن ہمیں اس طالبہ کے حال زار پر زیادہ افسوس نہ کرنا چاہئے اس طالبہ نے دس برس بعد دنیا کی مشہور ترین عورت بننا
تھا۔ وہ اپنے مطالعے میں اس قدر مستغرق رہتی کہ اسے بھوک کا خیال ہی نہ آنا بھوک اسے متزلزل اوراسکی داخلی آگ کو ٹھنڈا کرنے سے قاصر تھی۔تین برسن بعد مانیہ سکلوڈوسکا نے پیرس میں ایک ایسے شخص سے شادی کر لی کہ فقط اسی کے ساتھ وہ خوش رہ سکتی تھی۔ وہ شخص بھی اس کی طرح سائنس کا دیوانہ تھا۔ اس کا نام پائری کیوری تھا۔ اس وقت اس کی عمر فقط پنتین برس کی تھی اس کے باوجود اس کا نام فرانس کے نامور سائنس دانوں میں شمار ہوتا تھا۔

جس روز انہوں نے شادی کی ان کی دنیوی جائیداد فقط دو سائیکل تھے وہ ہنی مون منانے کے لئے اپنی سائیکلوں پر فرانس کے دیہات میں نکل گئے وہ ڈبل روٹی اور پنیرکھاتے اور رات کو ایسی سراؤں میں سوتے جہاں شمعوں کی روشنیوں سے خستہ حال ریواروں پر عجیب و غریب سائے رینگنے لگتے۔

تین برس بعد مادام کیوری ڈاکٹر کی ڈگری حاصل کرنے کی تیاری کر رہی تھی ۔یہ ایک عظیم سائنسی معرکے کا آغاز تھا۔ علم کیمیا کے سربستہ رازوں میں ایک دلچسپ سفر،مادام کیوری نے تمام کیمیاوی چیزوں کو ٹیسٹ کیا اور یہ جاننے کے لئے کہ کیا دوسری دھاتوں میں سے روشنی کی شعاعیں نکلتی ہیں۔ سینکڑوں دھاتوں پر تجربےکئے۔ آخر کار وہ اس نتیجے پر پہنچی کہ شعاعیں کوئی بےنام عنصر فضا میں بکھیرتی ہیں۔ نئے پر اسراس عنصر کو معلوم کرنے کے لئے مادام کیوری کا شوہر بھی ان کےساتھ تجربات میں شریک ہو گیا۔

کئی ماہ کے تجربات کے بعد مادام کیوری اور اس کے شوہر نے دنیائے سائنس پر ایک بم گرا دیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے خیال کے مطابق انہوں نے ایک ایسا عنصر دریافت کیاہے جس کی روشنی یورینیم کی روشنی سے بیسں لاکھ گنا زیادہ ہے۔ ایک یسی دهات جس کی شعاعیں لکڑی، پتھر ،لوہے اورتانبےمیں سے گزر سکتی تھیں۔ ایک حیرت انگیز وهات جس کی روشنی فقط سکہ روک سکتا تھا اگر انہوں نے واقعی کوئی ایسی دریافت کی تھی تو اس کامطلب تھا۔ انہوں نے وہ تمام بنیادی نظریےتہہ و بالا کر دیے تھے۔ جس پر سائنس دان صدیوں سے یقین کرتے چلے آرہے تھے۔
👀👀✔
انہوں نے اس حیران کن مادے کا نام ریڈیم رکھا۔ ، اس قسم کی کوئی چیز پہلے کبھی سننے میں نہ آئی تھی۔ یہ دوسری تمام دھاتوں کے اس قدرمختلف تھی کہ اپنے وقت تمام اچھے سائینسدان کسی ایسی دھات کی موجودگی کو مشکوک سمجھتے تھے۔ انہوں نے ثبوت کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ہمیں خالص ریڈیم دکھایا جائےلہٰذا اگلے چار برس (1902-1898ء) مادام کیوری اور اس کا شوہر ریڈیم کی موجودگی کا ثبوت مہیا کرنے کے لئے کام کرتے رہے۔ مٹر کے دانے کے برابر ریڈیم حاصل کرنے کے لئے پورے چار برس لگے آخر انہوں نے اسے کس طرح حاصل کیا؟ آٹھ ٹن لوہے کو ابال کر عمل تقطیر کے زریعےوہ ایک پرانے خستہ حال احاطے میں کام کیا کرتے تھے جسے میڈیکل کے طلباء تجربات کے لئے استعمال کرتے تھے اب وہ اس کام کے لائق بھی نہ رہا تھا۔

دریافت کا یہ نتیجہ ہوا کہ مادام کیوری روئے زمین کی مشہور ترین خاتون بن گئی۔ لیکن کیا شہرت اور عظمت کے وہ دن ان کے لئے مسرور ترین دن تھے؟

1902ء میں مادام کیوری اور اس کے شوہر نے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ کیا وہ امیر ہونا چاہتے ہیں یا سائنس کی بے لوث خدمت کے لئے اپنی زندگیاں وقف کرنا چاہتے ہیں اس وقت تک یہ دریافت ہو چکا تھا کہ ریڈیم کینسر کے علاج میں بے حد مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ ریڈیم کی مانگ روز بروز بڑھتی جا رہی تھی اور اسے تیار کرنے کا طریقہ دنیا میں فقط مادام کیوری اور اس کے شوہر کو معلوم تھا۔ وہ اپنی ایجاد کے حقوق کسی کمپنی کے پاس لاکھوں پاونڈ میں فروخت کر سکتے تھے.
😇😇😇😇😇😇😇😇😇😇😇😇😇😇👼👼👼👼👼
چونکہ ریڈیم کو ایک نفع بخش تجارت بنایا جا رہا تھا۔ لہذا اگر مادام کیوری کسی کمرشل کمپنی کے ہاتھوں فروخت کر بھی دی تو کسی کو کوئی اعتراض نہ ہوتا۔ اس طرح حاصل کی ہوئی رقم ان کے بچوں کے لئے مالی تحفظ کا سامان بن جاتی اور وہ آئندہ تحقیق کے لئے ایک شاندار تحقیق گاہ بھی تعمیر کر سکتے تھے۔ لیکن مادام کیوری نے اپنی ایجاد کے عوض ایک پائی بھی قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس نے کہا۔ یہ سائنس کے جذبے اور مقصد کے برعکس ہو گا۔ اس کے علاوہ ریڈیم کو ایک مہلک مرض کے خلاف بطور مفید ہتھیار کے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس لئے مجھے اس صورت حال سے ناجائز فائدہ نہ اٹھانا چاہئے ۔

اس طرح اس نے غیر معمولی اور پیغمبروں جیسی بے غرضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امارت کے بجائے انسانی خدمت کا راستہ پسند کیا۔