ھھ
مولانا ابوالکلام آزاد اور تقسیم ہند
تنویر عالم
1/ فضیلہ
مولانا ابوالکلام آزاد ایک بلند مقام ادیب, مشہور خطیب, تحریک آزادی کے مجاہد , عظیم المرتبت مفکر اور شہرہ آفاق سیاست داں تھے - جب وہ افق ہند پر نمودار ہوۓ تو اپنی ضیافشانی اور روشن شعاعوں سے پورے سرزمین ہند کو تاباں کر دیا - اپنے بے مثال عقلی طاقت اور بے نظیر علمی و فکری صلاحیت کے ذریعہ راہ حق کی جستجو کی اور عظیم حق شناس بن کر عیاں ہوۓ , پھر پوری دنیاں کو حق شناسی کا بہترین درس دئیے - اور سیاست کے میدان میں نمایاں کارنامہ انجام دیتے ہوۓ غلامی کی زنجیر میں جکڑے ہندوستان کو آزاد کراۓ -
دراصل جب انیسویں صدی کے وسط میں برطانوی سامراج برصغیر ہند پر اپنا تسلط قائم کر چکا تھا ,تب یہاں کے دو بڑے اقوام ہندو مسلم نے استعمار کے خلاف جنگ شروع کی , تاکہ غلامی کی زنجیر میں جکڑے ہندوستان آزادی کا پرچم لہراۓ - یہاں تک کہ ١٥ اگست ١٩٤٧ء کو یہ چمن سامراجیوں کے چنگل سے آزاد ہوا اور آزادی کے ساتھ ہی ہندوستان کی تقسیم کا مسئلہ سامنے آگیا - لیکن اس وقت کے مرد مجاہد , مجدداسلام , عظیم سیاست داں اور آزادی ہند کی تحریک کا وہ قائد اعظم جنہوں نے پورے جیون کو جنگ آزادی کی کامیابی کے لئے صرف کر دئیے - جن کی فہم و فراست اور عقل و خرد اس تقسیم کے برے انجام کو دیکھ رہی تھی جو تقسیم ہند کے قائل ہونے کی بات دور اس کے بارے میں سوچنا تک گوارا نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ آزادی پر بھی ہندو مسلم اتحاد و اتفاق کو ترجیح دیتے تھے اور ان کی پوری زندگی ہندو مسلم یگانگت اور اتحاد کے جزبے سے لبریز تھی - یہ بات ٹھوس اعتماد کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ مولانا آزاد جیسا ہندو مسلم اتحاد کا زبردست حامی اور اس کی خاطر اپنے آپ کو فنا کرنے والے رہنما جنگ آزادی کی پوری تاریخ میں نہیں ملتے - مولانا کی سیاسی زندگی کے دو سب سے اہم اغراض و مقاصد تھے : آزادی ہند اور اس کا اتحاد ,اور وہ دوسرے کو پہلے پر ترجیح دیتے تھے , کیونکہ انہوں نے ١٥ دسمبر ١٩٢٣ء کو دلی میں کانگریس کے کانفرنس میں خطاب کرتے ہوۓ فرمایا تھا :" آج اگر کوئ فرشتہ آسمان کی بدلیوں سے اتر آۓ اور دہلی کے قطب مینار پر کھڑے ہو کر یہ اعلان کرے کہ سورج چوبیس گھنٹے کے اندر مل سکتا ہے بشرطے کہ ہندوستان ہندو مسلم اتحاد سے دستبردار ہو جاۓ تو میں اس سورج سے دستبردار ہو جاؤں گا مگر اس سے دستبردار نہ ہوں گا , کیونکہ اگر سورج ملنے میں تاخیر ہوئ تو یہ ہندوستان کا نقصان ہوگا لیکن اگر ہمارا اتحاد جاتا رہا تو عالم انسانیت کا نقصان ہوگا -" ( مولانا ابوالکلام آزاد اور قوم پرست مسلمان کی سیاست : ٤٦)
اتنا ہی نہیں, مولانا نے ١٥ اپریل ١٩٤٦ء کو فرمایا تھا : " مسلم لیگ نے پاکستان کی سکیم کی تجویز کی ہے اس پر میں نے ہر پہلو سے غور و خوض کیا ہے , سکیم کے تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کی یہ نہ صرف بحیثیت مجموعی پورے ہندوستان کے لئے بلکہ خاص طور پر مسلمانوں کے لئے بھی نقصان دہ ثابت ہوگی - اور دراصل جتنے مسائل اس کے ذریعہ حل ہوں گے ان سے زیادہ مسائل اٹھ کھڑے ہوں گے - مجھے اس کا اعتراف ہے کہ پاکستان کا نام ہی میرے حلق سے نیچے نہیں اترتا , اس سے یہ خیال پیدا کیا جاتا ہے کہ دنیا کے کچھ حصے پاک اور کچھ ناپاک ہیں - پاک اور ناپاک علاقون کی یہ تقسیم سراسر غیر اسلامی ہے -"
یہی وجہ ہے کہ مولانا آزاد نے کبھی بھی نظریہ پاکستان کو قبولیت نہیں بخشی اور جہاں تک ان سے ہو سکتا تھا , ملک کو بٹوارے سے بچانے کہ پیہم کوشش کی - مولانا اس وقت کے واسراۓ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے بارے میں کہے تھے :" کہ انہوں نے کانگریس کے ممبران پر یہ اثر ڈالنا شروع کیا کہ تقسیم ناگزیر ہے اور اس طرح رفتہ رفتہ انہوں نے اگزیکٹیو کونسل کے ممبروں کے ذہن میں تقسیم کا خیال ڈال دیا - یہ بات قلم بند کرنا ضروری ہے کہ ماؤنٹ کے دام فریب کے شکار سب سے پہلے سردار پٹیل ہوۓ , پھر جواہر لال جو پہلے تقسیم کی بات سننا گوارا نہیں کرتے تھے لیکن ماؤنٹ لگے رہے یہاں تک کہ جواہر لال بدل گۓ - اب میری امید گاندھی جی سے وابسطہ تھی , کیونکہ ان کا یہ قول : " جب تک میرے جسم میں جان ہے , میں تقسیم پر کبھی راضی نہ ہوں گا اور اگر میرا بس چلا تو کانگریس کو بھی راضی نہیں ہونے دوں گا " مجھے امید دلا رہا تھا مگر گاندھی جی اور ماؤنٹ بیٹن کے بیچ دو گھنٹے کی گفت و شنید نے گاندھی جی کو بھی بدل ڈالا -" اس طرح ملک کی تقسیم حقیقت بن گئ - اس سے انکار نہیں کہ کانگریس کے ممتاز سیاست دانوں میں جس نے سب سے زیادہ بٹوارے کی شدید مخالفت کی وہ مولانا ابوالکلام آزاد تھے .