کمرات ویلی - قسط نمبر 8
بمقام ۔۔ ۔ وادی کمرات بفرمائش ۔۔۔۔۔حنیف زاہد علی احمد طاہر ڈاکٹر شاہد اقبال سید حسین علی گیلانی احسن مجید ارشاد ممتاز اعوان ساجد اقبال ڈاکٹر عامر ستار عبد المنان میاں ارشد نسیم میاں صابر بقا شیخ لطیف خلجی شہزاد مصطفیٰ یہ ہی تو وہ خواب نگر ہے جہاں پر اس پری وش کا دیدار ہوا تھا.
ایک حسین و جمیل ایک سنگ مرمر سے تراشیدہ بدن جلوہ فگن ہوا تھا.وہ بدن اب بھی میرے خواب و خیال میں جھانکتا ہے۔ میری سوچوں کے دامن کو کھینچ کھینچ کر اپنے ہونے کا احساس دلاتا رہتا ہے.
میری سوچوں کا محور
میری یاد نگر کا حسین گوشہ
میری صبح کا چمکتا نور.
میری شاموں کا روشن دیپ
میری راتوں کا ٹمٹماتا جگنو
میرے خواب و گمان میں دوڑتا لہو
میرے شوق آوارگی کی لے
میرے گیتوں کی راگنی تھی
وہ کیا تھی ؟
کیا میری سوچوں میرے وہم و گماں میں بسی کسی حسیں یاد کی کوئی متشکل صورت تھی ؟
کیا یہ حسینہ وادی کمرات کسی نازنین و دلنشیں حور کا لبادہ پہن کر میرے سامنے آ موجود ہوئی ؟
کیا یہ میرے یاد نگر ۔۔میرے شعور ۔۔۔میرے تحت الشعور کے چمن کے گھروندے میں بسی کوئی خوشبو تھی ؟
کیا یہ میرے چاہت نگر میں سوئی کسی حسیں خواب کی تعبیر تھی ؟
کیا یہ میرے دل کے انمول خانوں میں پوشیدہ کوئی راز تھا ؟
اک تو کہ صدیوں سے میرے ہم راہ بھی ہم راز بھی اک میں کہ تیرے نام سے ناآشنا.آوارگی میں نے اپنی ساری عمر ان جنت نظیر وادیوں کے طواف میں گزاری ان میں کھلنے والے پھولوں کی خوشبو کو اپنے دل و دماغ میں بسا کر اپنی روح کو معطر رکھا. ان میں بڑھتے پلتے درختوں،چلتے دریاؤں،گنگناتے پرندوں،جلترنگ بجاتے جھرنوں اور آبشاروں، برستے بادلوں کی کالی کالی گھٹاؤں،خوشبو بکھرتی گاتی ہواؤں،آسماں کی بلندیوں کو چھوتے پہاڑوں،زمین کی سجاوٹ زمین کے حسن اس کے مرغزاروں،درختوں کی شاخوں پر اگتے نئے پتوں،عمر رسیدہ لال پیلے ہو کر گرتے پتوں اور پھولوں،ان پھولوں پر اڑتی ان کی خوشبو چراتی تتلیوں،بل کھاتے راستوں چمکتے خوش نما پتھروں،دریاؤں کے پانیوں سے کھیلتی ۔۔۔پہاڑوں کی چوٹیوں سے ٹکراتی ۔۔برف زاروں پر پڑتی سورج کی کنواری کرنوں،جھومتی گاتی لہلہاتی رقص کناں فصلوں کی بہاروں،جنگلوں میں کھلتے چھوٹے چھوٹے پھولوں اور لذیذ و شیریں پھلوں کو اپنے روح اپنے کے نہال خانوں کی ہمیشہ زینت بنا کر محفوظ رکھا،مگرکمرات کی وادی میں پتہ نہیں کیا خاص بات تھی؟ ۔۔۔۔۔۔
کیا جادو تھا ؟
کیا نشہ تھا ؟
کیا پر اسراریت تھی ؟
کیا مخفی راز تھا ؟
کہ وہ دل سے اتر ہی نہیں رہی ہے اس کی یادیں ہمہ وقت میرا دامن کھینچ کھینچ کر اپنے ہونے کا احساس دلاتی رہتی ہیں جتنا بھولنے کی کوشش کرتا ہوں اتنا ہی زیادہ شدت سے میرے جسم و جاں میری روح کو جھنجھوڑتی ہیں.سارا منظر میری آنکھوں کے رستے میرے دل و جاں پر نقش ہو گیا ہے.میرا دل چاہتا ہے کہ ابھی اڑ کر وہاں پہنچ جاؤں،اس کے نظاروں میں گم ہو جاؤں اس کے راستوں ۔۔۔اس کی پگڈنڈیوں پر چلوں ۔۔۔۔اور چلتا چلتا دور انجانے راستوں کی طرف نکل جاؤں وہیں مجھے موت آ جاۓ. کس انجانے راستے کے کسی گھنے جنگل میں میرا مدفن بنے.
جھومتی ناچتی گاتی دریا کی لہریں میری قبر پر پڑے پتھروں سے ٹکرا کر ۔۔۔ان کو بھگو کر انجانی منزلوں کی طرف روانہ ہو جایئں ۔۔۔۔میری قبر کے سرہانے رات کی رانی کا پودا اگے ۔۔۔جس کی خوشبو سے پوری وادی کی فضا معطر ہو جاۓ پرندے اس پر بسیرا کریں ۔۔۔خوشی و مستی سے بھرپور صدائیں ان کی چہچہاہٹ پوری وادی میں پھیل جاۓ بھولے بھٹکے راہی اس درخت کے ساۓ میں پناہ لیں میری قبر پر سر رکھ کر میرے مدفن کو سرہانہ بنا کر سوئیں میری روح ہمیشہ اس بہشت بریں میں گھومتی بھٹکتی اس کا طواف کرتی رہے.
وادی کمرات مے کدے کی وہ شراب ہے وہ نشہ ہے جو پہلے توڑ کی شراب میں ہوتا ہے کہ جس کی پہلی چسکی سے لے کر تلچھٹ تک اس کا ہر گھونٹ نشے کے تمام اسرار اور چاشنی سے لبریز ہوتا ہے.شرابی ہر چیز بھول سکتا ہے مگر اس شراب کے ایک ایک گھونٹ کے سرور و مستی کو نہیں بھلا سکتا. اے وادی کمرات تیرا شکریہ،کہ تو نے میرے جمالیاتی ذوق کو ایک نئی بالیدگی ایک نئی روح ایک نئے ولولے سے نوازا زندگی بھر چاہنے کے باوجود بھی میں تجھے کبھی نہیں بھول پاؤں گا۔
میں اپنے تمام دوستوں تمام ہمسفروں ڈاکٹر شاہد اقبال۔ حنیف زاہد میاں ارشد نسیم قاسم سلدیرا ساجد اقبال افتخار وڑائچ اور میاں صابر کا شکر گزار ہوں کہ جن کی مدد اور ساتھ کے بغیر مجھ اکیلے کے لئے یہاں پہنچنا مشکل تھا۔
شکریہ بلو رانی ہماری جیپ کہ جس نے اپنے ناتواں کندھوں پر ہم کو اور ہمارے گناہوں کو اٹھایا اور ہمارے ساتھ عازم سفر رہی۔ آگے وادی لا موتی میں دریاۓ زندرائ جندرائ اور جہاز بانڈہ ہماری منزل تھی۔
Hi! I am a robot. I just upvoted you! I found similar content that readers might be interested in:
https://itsnuman.com/khalidch/travel-stories-of-pakistan/kumrat-valley-ep-no-8.html
its my own website